حیدرآباد(پریس نوٹ) ”میر کی شاعری کی بہت ساری جہتیں ہیں۔ انھیں تلاش کرنے اور منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔“ ان خیالات کا اظہار ممتاز ادیب و نقاد اور محقق پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین، استاد ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نے شعبۂ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی جانب سے منعقدہ لیکچر ”مطالعہ میر کی اہمیت“ میں کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ بڑے فنکاروں کے صرف ایک پہلو کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ ان کے دیگر پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ میر، نظیر، اکبر، میر امن، مرزا رسوا کے ساتھ بھی یہی معاملہ درپیش ہے۔ ان کی تمام خدمات پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں بندھی ٹکی راہ پر چلنے کی روش عام ہے۔ ادب کی ترویج و ترقی کے لیے نئے گوشے تلاش کرنے اور نئی بات کہنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے مطالعہ اور تحقیق لازمی ہے۔
میر کے دیوان میں غزلوں کے علاوہ مثنوی، قصیدہ، رباعی، حمد، نعت، منقبت وغیرہ بھی موجود ہیں۔ لیکن ان کی غزل گوئی پر ہی زیادہ توجہ دی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طلبہ اور شائقین مکمل دیوان پڑھنے کی بجائے انتخاب کلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ میر نے زبان کا خلاقانہ استعمال کیا ہے۔ انھوں نے نئی لفظی جہات کے ساتھ معانی کی ایک نئی دنیا آباد کی ہے۔ انھوں نے ایسے حروف پر مبنی الفاظ کا استعمال کیا ہے جن سے اشعار میں دھیما لہجہ اور موسیقیت پیدا ہوگئی ہے۔ انھیں چاہ کر بھی اونچے سر میں پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔
پروفیسر خواجہ اکرام نے اردو یونیورسٹی سے اپنے والہانہ لگاؤ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے سے مجھے بے حد محبت ہے۔ یہ ادارہ ایک تہذیبی وراثت ہے اور اس کی بقا و تحفظ کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ پروگرام کے آخر میں موصوف نے طلبہ کے سوالات کے جواب بھی دیے اور انھیں کھلے ذہن کے ساتھ مطالعے کی ترغیب دی۔
پروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی، صدر شعبۂ اردو نے مہمان مقرر کا جامع تعارف پیش کیا اور کارروائی چلائی۔ انھوں نے میر کے مطالعے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کے مخفی گوشوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور ریسرچ اسکالرز کو مشورہ دیا کہ شعرا کے کلام کا انتخاب پڑھنے کی بجائے مکمل دواوین کا مطالعہ کریں۔ تبھی وہ شعرا کے ساتھ خاطر خواہ انصاف کر سکیں گے۔
ڈاکٹر فیروز عالم، ایسوسی ایٹ پروفیسر کے اظہارِ تشکر پر پروگرام کا اختتام عمل میں آیا۔ جلسے کا آغاز ریسرچ اسکالر محمد سلیم کی قرأت قرآن سے ہوا۔ اس موقعے پر یونیورسٹی آف حیدرآباد کے شعبۂ اردو کے استاد ڈاکٹر محمد زاہدالحق، شعبۂ اردو مانو کے اساتذہ پروفیسر مسرت جہاں، ڈاکٹر محمد اختر، ڈاکٹر محمد جابر حمزہ، ڈاکٹر بدر سلطانہ اور طلباءو طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔